اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا ـ کے مطابق آسٹریلیا میں مسلم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک اہم تنظیم نے سینیٹر Pauline Hanson کے حالیہ اقدام کی مذمت کی ہے، جس میں وہ برقع پہن کر پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں داخل ہوئیں۔ تنظیم کے مطابق یہ عمل نہ صرف مسلم خواتین کی حقیقی زندگی کی درست عکاسی نہیں کرتا بلکہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویّوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔
’’مسلم ویمن آسٹریلیا‘‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ماہا عبدو نے کہا کہ ایسے اقدامات سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف منفی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے The Senior کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹر ہانسن کی جانب سے بار بار برقع کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا آسٹریلیا میں مسلم خواتین کی حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
انہوں نے کہا:
’’ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے اور مسلم ویمن آسٹریلیا کی نمائندہ ہونے کے ناطے میں کہتی ہوں کہ سینیٹر ہانسن کی جانب سے ہمارے لباس کا بار بار مذاق اڑانا ہماری اقدار اور ہمارے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔‘‘
واضح رہے کہ ہانسن، جو One Nation پارٹی کی رہنما ہیں، گزشتہ ہفتے برقع پہن کر سینیٹ میں داخل ہوئیں، جس کے بعد کام کے آخری ہفتے میں انہیں ایوان میں داخلے سے روک دیا گیا۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب وہ عوامی مقامات پر برقع پر پابندی کے لیے اپنا بل منظور کرانے میں ناکام رہیں۔
بعد ازاں سینیٹ نے اس واقعے پر انہیں باضابطہ طور پر سرزنش کی اور معافی مانگنے سے انکار پر ان کی معطلی میں مزید سات کاری دن کی توسیع کر دی گئی۔ معطلی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ہانسن نے اعلان کیا کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور اپنے اقدامات جاری رکھیں گی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ہانسن نے ایسا اقدام کیا ہو؛ اس سے قبل 2017 میں بھی وہ برقع پہن کر سینیٹ میں داخل ہوئی تھیں، جس پر اس وقت کے اٹارنی جنرل George Brandis نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس عمل کو ’’ہولناک‘‘ قرار دیا تھا۔
ماہا کریم عبدو نے کہا کہ یہ ’’نیا ڈراما‘‘ نہ تو تعمیری ہے اور نہ ہی کوئی نئی بات، بلکہ یہ مسلم خواتین کو سیاسی مظاہرہ بنانے کی اسی پرانی روش کا تسلسل ہے۔ ان کے مطابق،
’’مسلم خواتین کی شناخت کو محض سیاسی نمائش کے لیے استعمال کرنا ان کے زندہ تجربات کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اس سے وہ رویّے جنم لیتے ہیں جو امتیاز، ہراسانی اور صنفی تشدد کو ممکن بناتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم خواتین اپنے لباس کا انتخاب ثقافتی، روحانی اور ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کرتی ہیں اور وہ آسٹریلیا کے سماجی، شہری، معاشی اور ثقافتی شعبوں میں پوری محنت اور استقامت کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے بقول مسلم خواتین کی اصل ترجیحات خاندان کی صحت، بچوں کا تحفظ اور ملک کے لیے ایک جامع اور محفوظ مستقبل ہیں، نہ کہ اشتعال انگیز سیاسی تماشے۔
آپ کا تبصرہ